طوفان ہے اگر گھر کی درپے یوں بیٹھ نہ جاؤ کچھ تو کرو
کھڑکی کہ شکستہ شیشے پر کاغز ہی لگاؤ کچھ تو کرو
انسان کہ قبضۂ قدرت میں اک نطق نہیں، بہت کچھ ہے
ہونٹوں سے نہ نکلے بات اگر آنکھوں سے سناؤ، کچھ تو کرو
محرومِ تمنا رہنے کا سنّاٹا کھا جائے گا تمہیں
مایوسی کے سکتے سے بچو، آنسو ہی بہاؤ' کچھ تو کرو
سلطان کے قصرِ مرمر کا دروازۂ آہن بند سہی
گر توڑ نہیں سکتے اس کو، زنجیر ہی ہلاؤ، کچھ تو کرو
اے جلتے ہوئے گھر کے لوگو شعلوں میں گِھرے کیا سوچتے ہو
جب آگ بجھانا مشکل ہے باہر نکل آؤ، کچھ تو کرو
یہ کھیت جو چپ ہیں بولیں گے اور اکھوے آنکھیں کھولیں گے
بارش نہ سہی بجلی ہی سہی، کچھ تو برساؤ، کچھ تو کرو
ّـ احمد ندیم قاسمی